آج 11 ستمبر ہے قائداعظم کی وفات کا دن ، کئی روز سے بگڑی ہوئی روٹین کو بحال کرنے کی کوشش میں لگا ہوا تھا ، آج صبح پانچ بجے کافی دنوں کے بعد آنکھ کھل ہی گئی ۔ پھر بس بیت الخلاء سے فارغ ہونے کے بعد سوچا سیدھا نہاؤں کیوں کہ میں اٹھتے ہی نہاتا ہوں تاکہ سستی نہ پڑے ، جب اٹھا اسی وقت دل نے کہا بس پانچ منٹ بس پانچ منٹ لیٹنے دو ، گویا میں لیٹ گیا اور پھر کیا تھا ساڑھے آٹھ سے اماں نےآوازیں دینا شروع کیں مگر تھوڑا بہت ہل جل کر پھر وہیں جب آنکھ کھلتی تب دماغ کی ہلکی سی بتی جلتی کہ دفتر جانا ہے اٹھ جاء مگر گھڑی کو دیکھتا پھر سوجاتا وہ اس لیئے کہ میرا جسم ساتھ نہیں دے رہا تھا جیسے جان سی ختم ہوگئی ہو، ہاں یہ تھا کہ کل رات کو موسم بہت خوشگوار تھا کیونکہ آجکل موسم سرما شروع ہونے کو ہے خیر جیسے تیسے کر کے اٹھا اور نہانے چلا گیا ، بجلی کی وہی صورت حال عمران خان کی حکومت ہوتے بھی آج بھی بجلی بند تھی ، اور اس وقت 9 بجے کا وقت تھا ،  9:15 پر گھر سے نکلا پہلے ہی لیٹ ہوچکا تھا 45 منٹ کے پیسے نوکری سے کٹ چکے تھے ۔ جیسے ہی گھر سے نکلا تو جہاں سے رستہ میں روز جاتا ہوں وہاں ٹینٹ لگے دیکھے تو یاد آیا ہاں سوتے ہوئے نیم نیند کے عالم میں ایک اعلان سنا تھا جو کہ گھر سے باہر نکلتے ہی محلے میں موجود سب سے پرانی پنکچر لگانے والی دوکان کا رشتہ دار ہے ، بس موٹرسائیکل موڑنے ہی لگا تھا اس طرف لیکن ٹینٹ لگے دیکھ کر سیدھا آگے کی طرف کو رواں ہوگیا ، کہ اچانک سےآواز آئی حاشر ، دماغ نے فورا آواز پہچان لی یہ آواز عابد حسین پہلوان کی تھی میں جونہی موڑ کے دیکھا انہوں نے روک لیا اور کہتے ' میں تینوں شوٹر دی خبر دینی سی " میں نے کہا جی ؟ کہتے " دو دن پہلوں تیرا چھوٹا پرا ،بھائی ملیا سی تے انہوں میں پچھیا کہ حاشر کیتھے آ، تیرا نمبر وی لیا سی میں ، او میں تینوں اپنے ایک دوست نے انہاں نے کچھ دن پہلے شوٹر کھیڈیا تے سی ، تے میں سوچیا پتیجے نوں کوئی خبر دے دئیے ، توں ایداں کر واٹس ایپ تے مینوں میسج کر ، میں نے فون نکالا اور ان کا نمبر ٹائپ کیا لیکن وہ ڈائل نہ ہوپایا ، کیونکہ وہ سیو تو تھا مگر سکائپ کے حوالے سے سیو تھا ، خیر میں نے ان سے کہا آپ دوبارہ نمبر لکھوائیے انہوں نے لکھوا دیا اور پھر میں ان کو ایک مس بیل دے دیا اور کہاں ، چاچو جی میں دفتر جا کے کرداں توانوں لیٹ ہوریاں واں ، انہوں نے کہا ٹھیک آ، میں نے پہلے سوچا ادھرسامنے چوک سے نکل جاؤں لیکن دماغ نے فورا کہا نہیں پیچھے کریسنٹ کے ساتھ جو کالونی ہے ادھر سے باہر کی طرف الائیڈ موڑ پر نکل شارٹ کٹ  پڑے گا لہذا میں نے اپنی سواری کو اس طرف کو موڑ لیا اور ہوا کو چیرتا ہوا مین سرگودھا روڈ پر ساٹھ سے اسی کی سپیڈ جتنا ہوسکتا تھا تیز اتنا ہی اپنی سواری کو بھگایا اور سیدھا یونیورسٹی کے اندر آکر ایڈمن بلاک کے گیٹ کے باہر موٹر سائیکل لگا دی جہاں موٹرسائیکل لگانا منع ہے کیونکہ تمام موٹر سائیکلیں پہلے مین گیٹ کے ساتھ ہی لگانی پڑتی ہیں اور وہاں سے پیدل پانچ سو میٹر چلنے اور راستے میں یونیورسٹی کی مین داخلی راستہ جہاں بائیومیٹرک مشین لگی ہوئی ہیں اور اب صرف طالبات اور یونیورسٹی سٹاف کو جانے کی اجازت ہے ، اس کو کراس کرتے ہوئے آگے مین کتاب چوک پر جو تیسرا گیٹ ہے جو کہ صرف ایڈمن بلاک میں کام کرنے والے ملازمین کے لیئے ہے وہاں سے انٹر ہوا-اندر والے دروازے سے انٹر ہوکر بائیں طرف دروازے کے ساتھ ہی لگی بائیو میٹرک مشین پر حاضری لگائی اور ہاں حاضری لگانے سے پہلے مشین پر چلتاہوا ڈیجیٹل وقت دیکھا نو بج کر پچیس منٹ ہورہے تھے حاضری لگادی ، وقت اس لیئے پہلے دیکھا کیونکہ اگر ساڑھے نو سے اوپر اگر وقت ہوجاتا تو آدھے دن کے پیسے کٹ جاتے ، خیر لفٹ کا ایک خاموش بٹن دبانے کے بعد لفٹ کے اندر داخل ہوا اور پھر لفٹ کو برقی طاقت سے اوپر لے جانے کے لیئے دوسرے فلور کا بٹن دبا دیا اور پھر اوپر آگیا ، ابھی یہ جو لکھ رہا ہوں پونے پانچ بجے کا وقت ہوچکا ہے اس لیئے دفتر سے چٹھی کا وقت ہوگیا ہے لہذا باقی رات سونے سے پہلے لکھوں گا ، ابھی چلتا ہوں