تحریر
حاشر ریان

یہ موسم گرما کی بات ہے ۔ پتلے وجود کا مالک قد میں عام لڑکوں سے مشابہہ ،، آنکھوں میں مستقبل کے خوابوں کو سجائے ہوئے شکل وصورت کے لحاظ سے خوبصورت ،جو ہمیشہ ٹی شرٹس پہنتا اور زندگی میں کچھ بڑا کر دکھانے کا جذبہ اپنے دل میں سموئے ہوئے تھا ،یہ لڑکا انٹرمیڈیٹ کے امتحانات سے فارغ ہوکر نتائج کا انتظار کررہا تھا ۔یہ تھا : سیف جو مڈل فیملی سے تعلق رکھتا تھا ،یہ رات کے اڑھائی بجے ایک دوسرے شہر میں داخلہ لینے کی غرض سے سفر کی تیاری کرنے 'میں مصروف ہوجاتا ہے اور پھر تیاری مکمل ہونے بعد بغیر کچھ کھائے پیئے صبح روانہ ہونے والی بس میں سوار ہوجاتا ہے ۔یہ 8:00 بجے اس مقرر شدہ امتحانی سینٹر کے باہر پہنچ جاتا ہے جو دوسرے اجنبی شہر میں ہوتا ہے سیف دو سے تین گھنٹوں کے سفر کے بعد اپنی اس منزل میں داخل ہوکر اپنی پہلی نظر کو ہال میں دوڑاتا ہے یہ اپنے رول نمبر کے مطابق اپنی جگہ تلاش کرکے بیٹھ جاتا ہے ۔ یہ اپنی پینسل پینٹ کی جیب سے نکالتا ہے کہ اتفاقا پینسل نکالنے کے دوران اس کے پیسے نیچے گر جاتے ہیں ،یہ اس بات سے بے خبر اپنا پرچہ حل کرنے مصروف رہتا ہے ۔ اس نے پچھلی رات سے کھانا نہیں کھایا ہوتا ،بلا آخر سخت بھوک کی حالت میں یہ ٹیسٹ حل کرکے ،سکون وراحت کی بھری سانس لینے کی کوشش کرتا ہے ،لیکن بھوک اس کے اور سکون بھری سانس کے درمیان روکاوٹ حائل کردیتی ہے اور کانٹے کی طرح روکاوٹ حائل کردیتی ہے اور کانٹے کی طرح چبتی ہے اور چبتی چلی جاتی ہے یہ بھوک کے مارے ہال سے باہر آتا ہے،،ہال تیسری منزل پہ ہوتا ہے چنانچہ تیسری منزل سے نیچے آتے آتے یہ بھوکے سے اور دوہرا ہوتا چلا جاتا ہے ،یہ بھوک کو دبانے کی کوشش کرتا ہے مگر بھوک اس سے زیادہ طاقتورثابت ہوتی ہے یہ روڈ پہ امتیحانی سینٹر کے گیٹ کو پار کرکے فٹ پاتھ پہ کھڑا ہوجاتا ہے اس کی نظر سائیڈ پر کھڑے ایک چاول فروش پر پڑتی ہے جو عموما کسی بھی اجنبی شہر میں کسی روڈ مل جاتا ہے ،سیف نے کھانے کے لیے پیسے نکالنے کی غرض سے اپنا ہاتھ پینٹ کی جیب میں ڈالتا ہے اور ہکا بکا رہ جاتا ہے ،پیسے جیب سے غایب ہوتے ہیں ،پھربھوک کے عالم میں یہ روڈ کے کنارے چل دیتا ہے کچھ دیر پیدل چلنے کے بعد فٹ پاتھ پر سایہ دار درختوں کے نیچے لگ ایک بینچ پر بیٹھ جاتا ہے یہ سوچتا ہے کہ کاش کوئی مسیحا آئے اور اس کی بھوک مٹوادے یہ روتا ہے اور اپنے آنسوؤں کو صاف کرنے کے بعد روڈ پر پھر سے چل دیتا ہے یہ ایک بس میں ،سٹوڈنٹ کی حیثیت سے سفر کرکے اس اجنبی شہر کی بسوں کے اڈے پر پہنچ جاتا ہے یہ وہاں پر پہنچ کر پھر سے ایک جگہ لگے بینچ پر بیتھ کر سوچتا ہے کہ اس کے پڑھنے لکھنے کا کیا فائدہ کہ وہ اپنی ایک وقت کی بھوک نہ مٹا سکا ،چناچہ یہ کسی سے درخواست کرکے کھانے کے لیے پیسے لے لیتا ہے تب اسے احساس ہوتا ہے کہ ایک بھوک کے مارے آدمی کی دنیا کیسی ہوتی ہے اسی سوچ میں گم یہ ایک کھانے کے ہوٹل میں جاتا ہے اور جونہی کھانا اس کے سامنے آتاہے سیف آؤ دیکھتا ہے نہ تاؤ ،کھانے پر ایسے ٹوٹ پڑتا ہے کی اس کو نہ کوئی کھانے کے آداب یاد رہتے ہیں نہ کوئی کسی قسم کا لحاظ ،
جناب کوئی امیر ہو یا غریب کوئی خاص ہو یا عام شہری کوئی سڑک پہ بیٹھا کوئی مانگنے والا ہو یا کسی محل کا مالک ،کوئی سائنسدان ہو یا کوئی طالب علم ہر ایک کی دنیا تب ایک ہی ہوتی ہے جب بھوک تڑپاتی ہے پھر وہ چاہے کوئی بھی ہو تب صرف بھوک ہی بھوک نظر آتی ہے پھر وہ انسان ایک ہی سوچ سوچتا ہے بس اور بس بھوک لیکن ہمارے ملک کے بہت سے لوگ ایسے بھوکے ہیں بس فرق اتنا ہے کہ ان کی یہ بھوک دولت اور اقتدار کی ہے جو کبھی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی اور نہ کبھی ختم ہونے نام لے گی ۔ یہ شاید ایسے انوکھے بھوکے ہیں جن کی بھوک صرف اور صرف اقتدار کی کرسی سے ہی ختم ہوتی ہے ان کو اقتدار کی ایسی بھوک لگی ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی نہ جانے کب اور کیسے اور کونسی کھانے کی ڈش ان کی یہ بھوک مٹاسکے گی یہ ناممکن سا لگتا ہے ۔جناب اللہ نے روزے ای لیے فرض کیے ہیں کہ ہم بھوک کی حالت جان سکیں ۔پر لگتا ہے کہ ہمارے حکمران شاید اقتدار کی بھوک کو مٹانا ہی نہیں چاہتے ۔
سوال یہ ہے کہ کیا ان سیاستدانوں نے کبھی ان غریب اور بھوک کے ہاتھوں لاچار رعایا کی بھوک محسوس کی ؟ نہیں قبلہ نہیں انہیں اپنی بھوک سے فرصت ملے تو ہی یہ ان کی اس بھوک کو جان سکیں ہاں البتہ اقتدار کے یہ بھوکے حکمران الیکشن کے موقع پر اپنی بھوکی رعایا کی بھوک کو روٹی کپڑا جیسے جھوٹے سہارے دے کر ان کی اس بھوک کا حق بھی چھین لیتے ہیں اور چھو منتر ہوجاتے ہیں اور چھومنتر ہونے کا یہ سلسلہ نسل در نسل جاری ہے ۔
کہا تھا تم نے کہ مٹائیں گے بھوک کو ہر سمت سے
بھوک کو مٹاتے مٹاتے دیکھو تم حیواں ہوگئے
Post a Comment
Post a Comment
if you have any Doubt then please Text me